یہ جدوجہد
تو سب کی تھی
کے اشرف
یہ جدوجہد توسب کی تھی
سب چاہتے تھے قانون آے
قانون آے، آئین آے
انصاف کا ہو بول اور بالا
ڈکٹیٹر کا ہو منہ کالا
یہ جدوجہد تو سب کی تھی
ملک میں بھوتوں کا ڈیرہ
تھا
ہم سےدور سویرا تھا
کچہ تیرا تھا نہ میرا تھا
اس جدوجہد میں خون بہا
اس جدوجہد میں لوگ مرے
سب چاہتے تھے تبدیلی آئے
تبدیلی آئے اور یوں آئے
اس کالے بھیانک دورکی
ہر ایک علامت مٹ جائے
اس ایک تبدیلی کی خاطر
کئی جیل گئے کئی سر پھوٹے
کتنوں کا نام ونشاں نہ
ملا
لوگوں کی قربانیوں سے
جب یہ کالی رات ڈھلی
تو ہم نے دیکھا
کہ یہاں کچھ نہیں بدلا
یہ دیس تو ویسے کا ویسا
ہے
وہی پرانی ہیرا پھیری ہے
وہی دھندہ ہے وہی پیسہ ہے
ڈکٹیٹر بھی آزاد پھرے ہے
ساتھی بھی اس کے موج کرے
ہیں
چند مسخرے ہیں جو رات
اوردن
تبدیلی چاہنے والوں سے
ہنس ہنس کر ٹھٹھول کرے
ہیں
اور کالی بھیانک رات بھی
دل کھول کے ہم پر ہنستی
ہے
یہ جدوجہد تو سب کی تھی
یہ جدوجہد تو سب کی ہے
اس جدوجہد کو شاید ابھی
کچھ عرصہ جاری رہنا ہے
کچھ سر بھی ابھی پھوٹنے
ہیں
کچھ خوں بھی ابھی بہنا ہے
یہ جدوجہد تو سب کی ہے
|