سکوت مرگ
کے اشرف
ہر چیز پہ طاری ہے
ایک سکوت مرگ
پورے ملک میں جاری ہے
ایک سکوت مرگ
ایک اڎدھا ہے منہ کھولے
ہر چیز نگل جانے پہ آمادہ
اس اڎ دھے کے سب کارندے
ملک بھر میں پھیلے ہیں
کوئی نہیں
جواس اڎ دھے سے
اور اس کے کارند وں سے
ملک و قوم کو دے نجات
اور بن جاے ایسا فرمان
روا
پھر نہ یہاں کوئی اڎ دھا
آے
اور نہ کوئی اس کا کارندہ
ہو
ٹوٹے
سکوت مرگ کا طلسم
لوگوں کی جان میں جان آے
سردیوں کی یخ بستہ راتوں
میں
آگ کے الاو روشن ہوں
دوست سنایں داستانیں اپنی
پھوٹیں درختوں میں اکھوے
صحن چمن میں بہار آے
وادی میں نغمے گونج اٹھیں
اور اس سکوت مرگ سے
ساری قوم کی جاں چھوٹے
|