|
|
ٹھرا ہوا
منظر
کے اشرف
دشت میں ریت اور ہوا کا
جب بھی ہو اختلا ط
کتنے نئے منظر
ابھرتے ہیں
اور صحرا کی وسعتوں
میں دور تک
پھیل جاتے ہیں
سمندر کی سطح پر
جب موجیں ہوا کے ساتھ مل
کر
رقص کرتی ہیں
کتنے نئے منظر ابھرتے ہیں
اور ٹوٹ جاتے ہیں
جنگلوں میں
اشجار کی لچکیلی شاخیں
ہواوں کے ساتھ مل کر
کتنے نئے منظر بناتی
اور مٹاتی ہیں
مگر یا رب
یہ کیسا دیس ہے میرا
کہ جس پر مسلط ہے
عجب آسیب کا سایہ
یہاں پر آندھیاں آئیں
بجلیاں کوندیں
یا وخشی طوفانوں کے
ریلے ہوں
یہاں
منظر میں ٹھراو ہے
کچھ ایسا
کہ سب کچھ بھی بدل جائے
تو منظر میں
کوئی تبدیلی نہیں آتی
کبھی
تبدیلی نہیں آتی
19 ستمبر 2009
|